’’اَن داتا‘‘

وہ چھ بچوں کا باپ تھا۔ اسے ہر وقت ان کی پرورش کے ساتھ ساتھ تعلیم و تر بیت کی فکر رہتی۔ اگر اس کے لیے اسے اپنی جنم بھومی کو بادلِ نخواستہ چھوڑنا پڑتا تو وہ اس سے بھی دریغ نہ کرتا۔Lebanonمیں رہتے ہوئے وہ بچوں کی جسمانی دیکھ بھال اچھے طریقے سے انجام دے رہا تھا، لیکن وہاں ان کی تعلیم کے لیے سامان مہیا نہ کرسکتا تھا۔اپنے آبائی وطن کو نم دیدہ آنکھوں ، رنجیدہ دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ چھوڑنا پڑا۔

میکسیکو آکر ازسرِنو کاروبار شروع کیا۔دن بھر کی تھکن کے باوجود اپنے بچوں کو سبق یاد کرواتا۔ اس کایہ بھی ایک نظریہ تھا کہ بچوں کو تعلیم کے ساتھ کاروبار کرنے کا درس بھی دیا جائے۔ اس کے پیش نظر چھٹی کے دن وہ بیٹوں کو اپنے ساتھ دکان پر لے جاتا۔ اس کا پانچویں نمبر کا بیٹا ہوشیار اور ذہین تھا۔ اسے اس میں اپنا عکس دکھائی دیا۔ اس لیے وہ ان کی توجہ کا خصوصی مرکز بن گیا۔ابھی اس کا بیٹابارہ سال کا تھا۔باپ کی کاروباری تربیت کی وجہ سے بینک کے شیئرز خریدے۔ اسے کیا معلوم کہ یہی بچہ مستقبل میں اس کے نام کو چار چاند لگائے گا۔ دنیا کا امیر ترین شخص بنے گا۔ وہ بچہ، کارلوس سلِم Carlos Slim Helu) (ہے۔ سلِم کے خاندان اور تعلیم کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ ہر بچے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ان کی اولین ترجیح ہوتی۔ سلم اگرچہ کاروباری ذہنیت کا مالک تھا،اس نے بھی پہلے تعلیم کوتجارت پر فوقیت دی۔ غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سلم ہر ایک توجہ کا مرکز بن گیا۔ سلم 10 سال کا تھا جب اس کے سر سے باپ کا سایہ شفقت اٹھ گیا۔ اساتذہ اور رشتہ داروں نے پڑھائی میں اس کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ سلم نے ان کی لاج رکھتے ہوئے بہت سارے تعلیمی میدان مارے۔ اس کاذہن انجینئرنگ اور حساب میں خوب چلتاتھا۔ اس لیے سلم نے نیشنل یونی ورسٹی میکسیکو کے شعبہ انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔اس وقت 90فیصد میکسیکن لینڈلائن اور 80فیصد سیل

فون Telmexکی طرف سے آپریٹ کیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہوا میں قلعے تعمیر کرنے کے بجائے جو کچھ رقم اس کے پاس تھی، اسے پراپرٹی میں لگایا۔1960ء سے 1970ء کے درمیانی عرصے میں سلم یہ ریسرچ کرتارہا کہ کون کون سی بڑی کمپنیاں ایسی ہیں جن میں وہ سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ اس کی تحقیق کا ٹارگٹ پراپرٹی، کان کنی اور کنسٹرکشن تھا۔ اس کے لیے حکمت عملی بھی مرتب کرتا رہا۔ آخر قدرت اس کی

مسلسل اور ان تھک محنت کی وجہ سے اس پر مہربان ہوئی۔ 1980ء کے آغاز ہی میں یہ کامیاب اور دولت مند آدمی بن گیا، لیکن اس مقام پر نہیں پہنچے، جس پر آج وہ براجمان ہیں۔ 1982ء میں معاشی بحران کی وجہ سے میکسیکو کی معیشت کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا۔ کہا جاتاہے کہ ایک چیزکسی کے لیے سمِ قاتل اور دوسرے کے لیے تریاق ثابت ہوتی ہے۔ جہاں اس بحران نے میکسیکو کی چولیںہلاڈالیں، وہاں سلم کے کاروبار کو مزید

مستحکم کر گیا۔ دراصل میکسیکو کی معیشت تیل کی آمدنی پر تعمیر کی گئی تھی۔ جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت اچانک کم ہوئی تو اس کی عمارت دھڑام سے نیچے آگری۔ معیشت سکڑنے سے اس ملک کی کرنسی پیسو(peso) کا ریٹ بھی کم ہوگیا۔ بڑی بڑی کمپنیاں اس بحران کاشکار ہوئیں۔ سلم نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا، مختلف کمپنیوں کوکوڑیوں کے بھاؤ خرید لیا۔ اس کے ساتھ

ساتھ مختلف کاروبارمیں سرمایہ کاری کی ۔ Reynold Aluminium،Hershey’s ، جنرل موٹرز اور برٹش امریکن ٹوباکو جیسی بڑی بڑی کمپنیوں میں بھی سرمایہ لگایا۔ رفتہ رفتہ میکسیکو کی ڈوبتی معیشت سنبھلنے لگی۔ کچھ عرصہ بعد سابقہ حالت پر یہ ملک آکھڑا ہوا۔ سلم کا کاروبار کافی وسیع ہو چکا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ فنانشل سروسز انڈسٹری میں سرمایہ لگاتارہتا تھا۔ 1990ٗٗٗٗٗٗٗء کی ابتدا میں سلم اپنی محنت کو بھاری

منافع کی صورت میں ثمر بارپانے لگا۔ اقتصادی بحران کی دوران اس نے بروقت اور برمحل سرمایہ کاری کی تھی۔ جہاں موقع ملاتھا، اس نے اسے غنیمت جان کر بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اس سے اس کا کاروباروسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ 1990ء کو میکسیکو میںٹیلی کمونیکیشن انڈسٹری نے ایک نیا رخ لیا۔ اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا تو حکومت نے ’’میکسیکن نیشن لینڈ لائن ٹیلی فون کمپنی‘‘ لانچ کی ۔ سلم کے لیے یہ ایک ایسا

وقت تھا کہ اس گرم لوہے پر چوٹ لگائے ، ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر سرمایہ کاری کرنے کا سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔اس کے بعدوہ کشاں کشاں سیل فون ٹیکنالوجی کی جگہ لیتی چلی گئی۔ اس وقت 90فیصد میکسیکن لینڈلائن اور 80فیصد سیل فون Telmexکی طرف سے آپریٹ کیا جاتاہے ۔ یہ Telmexکمپنی کارلوس سلم کی ہے۔ 2000ء میں پھر ایک بار اقتصادی بحران نے ڈیرے ڈالے لیکن سلم کے کاروبار کو

شکست سے دوچار نہ کر سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سلم نے ہر نوع کے کاروبار میں پیسہ لگا رکھاہے۔ اگر ایک سیزن میں کوئی بزنس متاثر ہوتاہے تو دوسرے میں یہ نفع بخش ہوتاہے۔ ایک ہی وقت میں ایک کاروبار خسارے میں پڑتاہے تو دوسرا نہیں۔ کارلوس سلم کی کامیابی کا سب سے بڑا راز بروقت اور برمحل خرید و فروخت کرنا ہے۔ عام طور پر دیکھا جاتاہے کہ انسان دولت کے نشے اور عیش میں دوسروں کو

بھول جاتا ہے، لیکن سلم نے ایسا نہ کیا۔ اس نے غریبوں اور لاچاروں کے لیے خیراتی ادارہ Fundacion Telmexکے نام سے 1990ء میں بنایا۔سلم اپنی محنت اور خدمت خلق کی بدولت مختلف حلقوں میں ’’ اَن داتا‘‘ کہلانے لگا۔ اس نے ٹیلی میکس کی طرح کے مختلف عوام دوست پروجیکٹ تشکیل دیے۔ بچپن میں جو اساتذہ نے تربیت کی تھی کہ ملک و ملت کی خدمت کرنی ہے ، اس کا خیال بھی رکھا۔ اپنی قوم کے لیے اسکول

، میوزیم اور آرٹ گیلریاں وغیرہ بنائیں۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم بروقت موقع کو قیمتی بنائیں ۔ ملک کی تعمیرو ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس دنیا سے جاتے جاتے کچھ ایسے کام کر جائیں جو ہمارے لیے ذخیرہ آخرت ثابت ہوں اور آنے والی نسلوں کے لیے مثالی ہوں۔

The post ’’اَن داتا‘‘ appeared first on JavedCh.Com.



Comments

Popular posts from this blog

سہ فریقی ٹی 20 سیریز، پاکستان اور زمبابوے آج آمنے سامنے ہونگے

SpaceX Starship SN11 rocket fails to land safely after test launch in Texas

جابہ میں کوئی بڑا مکان یا مدرسہ نہیں جس میں 350لوگ اکٹھے موجود ہوں اور نہ ہی کوئی ایسا مکان ہے جس میں 15لوگ بھی ایک وقت میں رہ سکیں،350لوگوں کو مارنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹ کا پلندہ نکلا